FRUITS IN OLD TIMES AND NOW IN MODERN WORLD

ہمارے پسندیدہ پھل اور سبزیاں، جو پہلے بالکل مختلف ہوتے تھے



اگلی بار جب آپ تربوز کے کسی ٹکڑے یا مکئی کے دانوں کا مزہ لیں تو یہ ضرور سوچ لیں کہ یہ جانے پہچانے پھل اور سبزیاں دیکھنے اور ذائقے میں ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔
جی ہاں جینیاتی طور پر تدوین کردہ فوڈز پر حالیہ دنوں پر کافی سخت ردعمل سامنے آیا ہے مگر انسان ہمیشہ سے اپنی پسندیدہ خوراک میں جینیاتی تبدیلیاں لاتا رہا ہے۔
کیلوں سے لے کر بینگن اور متعدد دیگر پھل اور سبزیاں پہلے بہت زیادہ مختلف ہوتی تھی اور ان کی موجودہ شکل اس وقت بننا شروع ہوئی جب انسانوں نے ان غذاﺅں کو خود اگانا شروع کیا۔

جنگلی تربوز


فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

17 ویں صدی کی اس پینٹنگ میں Giovanni Stanchi نے ایک تربوز کو پیش کیا ہے جو کہ موجودہ عہد کے تربوز سے بالکل ہی مختلف ہے۔ یہ پینٹنگ 1645 سے 1672 کے درمیان بنائی گئی تھی اور اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تربوز کس طرح کی عجیب ساخت کے حامل ہوتھے تھے۔

موجودہ تربوز


فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

وقت گزرنے کے ساتھ انسانوں نے تربوز کو اگانے کے لیے سلسلے میں کافی تجربات کیے اور اس کا اندرونی حصہ سرخ اور ماضی کے مقابلے میں بالکل مختلف ہوگیا۔ فرق آپ دونوں تصاویر کا موازنہ کرکے خود محسوس کرسکتے ہیں۔

جنگلی کیلے


فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

مانا جاتا ہے کہ پہلا کیلے کی کاشت کم از کم 7 ہزار سال پہلے ہوئی تھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا 10 ہزار سال پہلے شروع ہوگیا ہو، مگر جو کیلے پہلے ملتے تھے وہ آپ دیکھ سکتے ہین جن میں بڑے اور سخت بیج ہوتے تھے اور انہیں کھانا اتنا آسان نہیں ہوتا تھا۔

موجودہ کیلے


کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

موجودہ عہد کے لذیذ کیلوں کی ساخت آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں کتنی مختلف اور دیکھنے میں بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اس پھل مین اب پیج بہت چھوٹے، ذائقہ بہتر اور صحت کے لیے فائدہ مند اجزاءسے بھرپور ہوتا ہے۔

جنگلی گاجر


فوٹو بشکریہ جینیٹک لٹریسی پراجیکٹ
فوٹو بشکریہ جینیٹک لٹریسی پراجیکٹ

ممکنہ طور پر اس کی کاشت 10 ویں صدی ایران اور ایشیاءکے مختلف حصوں میں شروع ہوئی تھی، ایسا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا اصل رنگ جامنی یا سفید ہوتا تھا جبکہ پتلی، ٹیڑھی جڑ ہوتی تھی، مگر وقت کے ساتھ اس کا جامنی رنگ ختم ہوگیا اور یہ زرد رنگ کی ہوگئی۔

موجودہ گاجریں


کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

کاشتکاروں نے ان پتلی اور سفید جڑوں کو گھریلو بناتے ہوئے اس میں تبدیلیاں کیں اور اس کا ذائقہ زیادہ بہتر جبکہ شکل بالکل بدل کر رہ گئی۔ یہ بڑی مزیدار نارنجی رنگ کی گاجریں اب ہر سال سردیوں میں کی فصل بن چکی ہیں۔

جنگلی بینگن


فوٹو بشکریہ جینیٹک لٹریسی پراجیکٹ
فوٹو بشکریہ جینیٹک لٹریسی پراجیکٹ

ہمیشہ سے بینگن کی ساخ اور رنگوں میں کافی فرق دیکھا گیا ہے، جیسے سفید، جامنی اور زرد وغیرہ جیسا آپ اوپر دیکھ سکتے ہیں کہ سب سے پہلے اس سبزی کی کاشت چین میں ہوئی۔ ابتدا میں ان کے اوپر ایک کانٹا بھی ہوتا تھا اور اکثر گول ہوتی تھی۔

موجودہ بینگن


کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

مگر اس سبزی کو اگانے کی مخصوص ترکیب نے کانٹوں کو ختم کردیا جبکہ اس کی رنگت بھی جامنی میں تبدیل ہوگئی اور اب اکثر بینگن لمبوتری شکل میں ہی فروخت ہوتے ہیں۔

جنگلی مکئی


فوٹو بشکریہ جینیٹک لٹریسی پراجیکٹ
فوٹو بشکریہ جینیٹک لٹریسی پراجیکٹ

مکئی کو سب سے پہلے 7 ہزار قبل مسیح میں کاشت کیا گیا تھا جو اتنی خشک ہوتی تھی جتنے خام آلو۔

موجودہ مکئی


کریٹیو کامنز فوٹو

No comments:

Post a Comment