Eid-e-Mubahila & its history

                  Eid-e-Mubahila & its History


Eid-e-Mubahila is celebrated on 24 Zulhijja to mark the famous event of 'Mubahila' which took place in the year 10 AH against the Christians of Najran. A delegation comprised of 60 Christians of Najran headed by Abdul Masih their chief monkpriest came to the Holy Prophet (pbuh&hp) and discussed with the personality of Hazrat Isa (as). The Holy Prophet (pbuh&hp) told them not to deify Jesus for he was only a mortal created by God, and not God Himself. Then they asked who the father of Jesus was. By this, they thought that since he was born without a father the Holy Prophet (pbuh&hp) would helplessly accept Jesus' father being God himself. In reply to this question was revealed the Verse:
"Verily, similitude of Jesus with God is as the similitude of Adam; He created him out of dust then said He unto him BE, and he became."
When the Christians did not agree to this line of reasoning, then this verse was revealed enjoining upon the Prophet (pbuh&hp) to call the Christians to Mubahila.
"And unto him who disputeth with thee therein after the knowledge hath come unto thee, Say ! (O' Muhammad!Unto them) come ye, let us summon our sons, and (ye summon) your sons, and (we summon) our women and (ye) your women, and (we summon) ourselves and then let us invoke the curse of God on the liars."
To this the Christians agreed and they wanted to return to their place and would have the Mubahila the next day. Early next morning the Holy Prophet (pbuh&hp) sent Salman al Farsi (May Allah be pleased with him) to the open place, fixed outside the city for the historic event, to erect a small shelter for himself and those he intended to take along with him for the contest. On the opposite side appeared the Christian prists, while at the appointed hour the Christians witnessed the Holy Prophet (pbuh&hp) entering the field with Imam Hussain (as) in his lap, Imam Hasan (as) holding his finger, and walking beside him, Hazrat Fatima (as) and followed by Imam Ali al Murtaza (as).
Looking at these holy personalities, the Chief Monk addressed the huge crowd of the people who had gathered on the spot, and addressed them saying:
By God, I see the faces which, if they pray to God for mountains to move from their places, the mountains will immediately move. O believers in the Jesus of Nazareth, I will tell you the truth that should ye fail to enter into some agreement with Muhammad (pbuh&hp) and if these souls whom Muhammad (pbuh&hp) has brought with him, curse you, ye will be wiped out of existence to the last day of the life of the earth !
The people readily agreed to the advice counseled by their Leader. They beseeched the Holy Prophet ( pbuh&f ) to give up the idea of the agreed Mubahila and requested for themselves to be allowed to continue their faith, offering to pay ' Jizya '.
(Al Tabari, Commentary of the Quran, v 2 p 192, 193)
END
                         SOURCE 2
مباہلہ :-
مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے جسے سیرت ابن اسحاق اور اور تفسیر ابن کثیر میں تفصیل سے لکھا گیا ہے. نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےنجران کے عیسائیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرو، یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاو۔ عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے نصارئے نجران کے اشراف و بزرگ افراد میں سے ساٹھ آدمیوں پر مشتمل وفد جس میں سید، عاقب اور ابوحارثہ (اسقف اعظم) ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعوت پر مدینہ بھیجے، اسقف نے سوال کیا ، یا محمد، عیسیٰ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: وہ خدا کے بندے اور اس کے رسول تھے، انہوں نے کہا: کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ کوئی بچہ بغیر باپ کے پیدا ہو؟ ان کے اس سوال پر رب جلیل کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:
ان مثل عیسی عبداللہ آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون۔
یعنی حضرت عیسی کا واقعہ خدا کے نزدیک حضرت آدم کے واقعہ کی طرح ہے کہ خدا وند عالم نے اس کو زمین سے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا۔
مناظرہ بہت لمبا ہوگیا اور وہ اپنی ضد اور دشمنی پر قائم تھے، خداوند عالم نے فرمایا:
“فَمَنۡ حَآجَّكَ فِيهِ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ ٱلۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡاْ نَدۡعُ أَبۡنَآءَنَا وَأَبۡنَآءَكُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمۡ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ ٱللَّهِ عَلَى ٱلۡڪَـٰذِبِينَ (٦١)“ (سورہ آل عمران، آیت۶۱)
یعنی ان تمام واضح باتوں کے باوجود اگر تم سے کوئی عیسیٰ کے متعلق گفتگو کرے تو آپ ان سے کہو:
“ہم اپنے فرزندوں کو بلائیں اور تم اپنی فرزندوں کو بلاؤ ، ہم اپنی عورتوں کو بلاتے ہیں تم اپنی عورتوں کوبلاؤ ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے نفسوں کوبلاؤ پھر مل کر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں گے۔”
آیت نازل ہونے کے بعد یہ طے پایا کہ دوسرے دن مباہلہ کیا جائے، پھر نصاریٰ اپنی جگہ واپس چلے گئے ، مشورہ کرنے کے بعد ابوحارثہ نے کہا کہ اگر محمد کل اپنے بچوں اور اہل بیت کے ساتھ آئیں تو خبردار مباہلہ نہ کرنا لیکن اگر کسی اور کے ساتھ آئیں تو پھرمباہلہ کرنا (مباہلہ: یعنی ایک دوسرے پر لعنت کیلئے بددعا اور لعنت کرنا)۔
اگلے روز صبح کے وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، حضرت علی (علیہ السلام) کے گھر تشریف لائے اور حسنین (علیہم السلام) کے ہاتھ پکڑ کر حضرت امیر المومنین کو آگے کیا اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ان کے پیچھے چلیں اور مدینہ سے مباہلہ کے لئے روانہ ہوئے،
جب مقررہ مقام پر دو درختوں (مدینہ سے باہر) کے پاس پہنچے تو وہاں رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اپنی سیاہ عبا ان درختوں پر پھیلا کر سایہ بنایا اور یہ پنجتن اس سایہ میں تشریف فرما ہوگئے - ابوحارثہ نے پوچھا - آپ کن افراد کو اپنے ہمراہ لاے ہیں تو رسول الله نے فرمایا
''میں ان لوگوں کے ہمراہ تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا جو تمام اہل زمین میں سے بہتر و برتر ہیں اور تمام کائنات میں سے الله تعالیٰ کے نزدیک نیک ترین ہیں- مجھے میرے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں ان کے ہمراہ تمہارے ساتھ مباہلہ کروں''
پھر آپ نے ابوحارثہ کو متوجہ کرنے کی خاطر ان ہستیوں کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا-
ابوحارثہ نے کہا: خدا کی قسم وہ اس طرح بیٹھے ہیں جس طرح انبیاء مباہلہ کے لئے بیٹھتے ہیں، پھر ابوحارثہ واپس آگیا، سید نے کہا: اے ابو حارثہ مباہلہ کے لئے آؤ، اس نے کہا: اگر محمد ، حق پر نہ ہوتے تو مباہلہ کی جرائت نہ کرتے اور اگر مباہلہ کیا گیا تو ایک سال میں تمام نصرانی ختم ہوجائیں گے - میں دیکھ رہا ہوں کہ زمین پر زلزلے کے آثار ہیں - آفتاب دگرگوں ہو رہا حیا - آسمان کو سیاہ بادل گھیر رہے ہیں- پرندے چیخ اور پھڑپھڑا رہے ہیں- درخت اپنی شاخوں کو جھکاے ہوے ہیں- اور وہ بزرگوار انتظار میں ہیں کہ دوا کے لئے ہاتھ اٹھائیں - یاد رکھو کہ ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہے کہ محمد حقیقتاً الله کے نبی ہیں - اگر انہوں نے بد دعا دی تو ہمارا نام و نشان نہ رہے گا- آؤ ان سے صلح کر لیں-
آخر کار انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم ، مباہلہ نہ کرکے مصالحہ کرلیتے ہیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے قبول کرلیا، اور یہ طے پایا کہ ہر سال دو ہزار حلہ، جزیہ کے طور پر ادا کریں، ہر حلہ کی قیمت چالیس یا باروایت ساٹھ درہم تھی۔ اور اگر جنگ وغیرہ پیش آئے تو تیس عدد زرہ، تیس عدد نیزہ اور تیس گھوڑے عاریہ کے طور پر دیں، اس کے بعد صلح نامہ لکھا گیا اور کچھ عرصہ بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوکر تمام مسلمان ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مباہلہ کی روایت ، شیعوں کی تمام کتابوں میں بیان ہوئی ہے اور عامہ کی بیشتر کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے جیسے صحیح مسلم، مسند احمد، سنن ترمذی وغیرہ، اور ان کتابوں میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ یہ آیت ، پیغمبر اکرم،علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کے متعلق نازل ہوئی ہے اور یہ تمام لوگوں پر حضرت علی (علیہ السلام) کی فضیلت پردلیل ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مباہلہ میں علی (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے کر گئے جب کہ تمام لوگ مدینہ ہی میں تھے۔
یہ واقعہ چوبیس ذوالحج ، سن دس ہجری کو پیش آیا-
۱۔ حوادث الایام، (شیخ عباس قمی) ص ٣٠٤۔
٢- تقویم شیعہ (عبد الحسین نیشا پوری)


No comments:

Post a Comment